Add To collaction

لیکھنی کہانی -11-Oct-2023

وہ حسن ہے اے سید اَبرار تمہارا اللہ بھی ہے طالبِ دِیدار تمہارا محبوب ہو تم خالق کل مالک کل کے کیوں خلق پہ قبضہ نہ ہو سرکار تمہارا کیوں دِید کے مشتاق نہ ہوں حضرتِ یوسف اللہ کا دِیدار ہے دِیدار تمہارا اللہ نے بنایا تمہیں کونین کا حاکم اور رکھا لقب احمد مختار تمہارا بگڑے ہوئے سب کام سنبھل جائیں اسی دم دل سے کوئی گر نام لے اِک بار تمہارا اُمت کے ہو تم حامی و غمخوار طرفدار اللہ تعالیٰ ہے طرفدار تمہارا تم اَوَّل و آخر ہو تمہیں باطن و ظاہر رب کرتا ہے یہ مرتبہ اِظہار تمہارا کیا جانیے مَا اَوْحٰی میں کیا راز ہیں مخفی تم جانتے ہو یا وہی ستار تمہارا تم پیارے نبی نورِ جلی سر خفی ہو اللہ تعالیٰ ہے خبردار تمہارا سر ہے وہی سر جس میں ترا دھیان ہے ہر آن اور دل ہے وہی جو ہے طلبگار تمہارا جس کو مرضِ عشق نہیں ہے وہ ہے بیمار اچھا تو وہی ہے جو ہے بیمار تمہارا ہر وقت ترقی پہ رہے دَردِ محبت چنگا نہ ہو مولیٰ کبھی بیمار تمہارا دِل میں نہیں کچھ اس کے سوا اور تمنا اللہ دِکھا دے ہمیں دَربار تمہارا یہ اَرض و سما خوان ہیں مہمان زمانہ سرکار نہیں کون نمک خوار تمہارا ہر دَم ہے تمہیں اپنے غلاموں پہ عنایت دن رات کا یہ کار ہے سرکار تمہارا بے مانگے عطا کرتے ہو من مانی مرادیں دینا ہی غلاموں کو ہے کردار تمہارا کیوں عرض کروں مجھ کو ہے اس چیز کی حاجت سب جانتا ہے یہ دلِ بیدار تمہارا بالیں پہ چلے آؤ دمِ نزع خدارا دَم توڑتا ہے ہجر میں بیمار تمہارا لاشے کو کریں دفن مدینہ میں فرشتے مرجائے اگر ہند میں بیمار تمہارا پرواز کرے جسم سے جب رُوح تو دِل میں اللہ ہو اور لب پہ ہو اِقرار تمہارا اُمت بھی تمہاری ہوئی اللہ کو پیاری اللہ سے وہ پیار ہے سرکار تمہارا اُٹھ جائے مدینے سے لحد کا مری پردہ میں دیکھ لوں وہ چاند سا رُخسار تمہارا دن رات جو کرتے ہیں خطاؤں پہ خطائیں بخشش کے لیے ان کی ہے اِصرار تمہارا اللہ نے وعدہ یہ کیا ہے شبِ معراج دوزخ میں رہے گا نہ گنہگار تمہارا جب تم کو بلایا شبِ معراج خدا نے جبریل بنا غاشیہ بردار تمہارا بندوں کو کسی وقت بھی دل سے نہ بھلایا ہے اُمت عاصی پہ عجب پیار تمہارا کیوں عاصیو غم سے ہے دل اَفگار تمہارا غمخوار تمہارا ہے وہ دلدار تمہارا لو آیا وہ حامی و مددگار تمہارا بیڑا ہوا اے اَہلِ سنن پار تمہارا اے عاصیو تم اپنے گناہوں سے یہ کہہ دو سرکارِ مَدینہ ہے خریدار تمہارا میدانِ قیامت میں بجز ذاتِ مقدس اور عاصیو ہے کون خریدار تمہارا گھبرائے گنہگار تو رحمت نے پکارا اے عاصیو آپہنچا مددگار تمہارا اَعمال نہ کچھ پوچھنا رحمت کے مقابل جس وقت جمے حشر میں دَربار تمہارا دنیا میں قیامت میں سرِ پل پہ لحد میں دامن نہ چھٹے ہاتھ سے سرکار تمہارا اے کاش ملائک سرِ محشر کہیں مجھ سے لو دُھل گیا سب جرموں کا طومار تمہارا اَعدا کو جلانے کے لیے نارِ حسد میں
ہم ذِکر کیے جائیں گے سرکار تمہارا توحید پہ مرتے ہیں مگراس سے ہیں غافل اللہ کا اِنکار ہے اِنکار تمہارا توہین کو توحید سمجھتے ہیں وہابی سمجھے انہیں رب واحدِ قہار تمہارا بلبل ہے جمیلؔ رضوی اے گلِ وحدت مِل جائے اسے رہنے کو گلزار تمہارا

   0
0 Comments